انٹرنیٹ کی جغرافیائی سیاست: امریکی تسلط کی حاکمیت

ادہ سی حقیقت تو یہی ہے کہ امریکہ نے پینٹاگون کے ڈارپا (DARPA) ملٹری پروجیکٹ کے ذریعے انٹرنیٹ کو ایجاد کیا جس سے دنیا پر اس کی منفرد اجارہ داری قائم ہوئی لیکن ابتدا میں ہی اسے روس اور چین کی صورت میں سائبرنیٹک حریف مل گئے تھے۔

سائبر جنگ پہلے سے ہی شروع ہوچکی ہے کیو نکہ امریکہ روس اور چین کے خلاف یہ جنگ لڑ رہا ہے اب ایکواڈور کے صدر لینن مورینو( جو پہلے ہی آئی این اے پیپر سکینڈل میں گھرے ہوئے ہیں) نے واشنگٹن میں بیٹھے ہوئے اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لئے آسٹریلیا اور ایکواڈور کی دوہری شہریت رکھنے والے وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کو گھٹیا طریقے سے ان کے حوالے کیا۔ایکواڈور کے صدر کی اس گھٹیا حرکت نے سائبر کی دنیا میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے اور یہ بحث آزادی اظہار اور سنسر شپ کے حوالے سے ہے۔ سائبر نیٹک کی دنیا، سلیکون ویلی کے ٹیکنالوجیکل جن گوگل ،ایپل ،فیس بک، ایمیزون، اور ٹویٹر کے مکمل طور پر زیر اثر ہے۔ اور ان کمپنیوں نے اخلاقیات کا جنازہ نکالتے ہوئے دنیا کے شہریوں کی پرائیویسی کو مکمل طور پر روند دیا ہے.

اس سلسلے میں فرانس کے مصنف اور پسٹور انسٹیٹیوٹ آف کمپیوٹر سائنس کے سابق سربراہ اور پیرس-ڈیوپیھا ئن یونیورسٹی کے انفارمیشن سسٹم کے ڈائریکٹر، لارنٹ بلچ نے 2017 ء میں "سائبر اسپیس کی جیوپولیٹکس" کو زیر موضوع بناتے ہوئے سائبر سپیس کو بطور سٹریٹجک سپیس پرکھتے ہوئے انٹرنیٹ کو امریکی طاقت کے تسلط کا ذریعہ قرار دیا۔

یہ کتاب فرانس کے جیوپولیٹیکل سیکٹر ڈپلو ویب سے تعلق رکھتی ہے جہاں پر امریکہ کی انٹرنیٹ پر اجاداری کا مکمل طور پر تجزیہ کیا گیا فرانس یورپی یونین کا بذات خود ایک اہم ملک ہے لیکن یہ سائبر میراتھن میں برسلز سے بھی بہت پیچھے رہ گیا۔

مصنف کے مطابق اگر باہمی موازنہ کیا جائے تو سائنس کی روایات میں مالامال ہونے کی وجہ سے روس کو بہت زیادہ فوائد حاصل ہیں لیکن اسے خفیہ ڈومینز اور صنعتی طاقت کے پھیلاؤ کی کمی کا سامنا ہے۔

بلچ نے روس کے ترقیاتی رجحان کو نظر انداز کیا ہے، خصوصی طور پر اس نے روس کی چین کے ساتھ سائبر نیٹک میدان میں تعاون کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے۔

اگرچہ امریکہ انٹرنیٹ پر اپنی اجارہ داری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دنیا کے کسی بھی ملک میں انٹرنیٹ کی رسائی کو روک سکتا ہے تاہم روس سائبرنیٹک آزادی کا متلاشی ہے اور اس وجہ سے وہ خود کار اور آزاد سرور کا نظام پھیلا رہا ہے۔

مصنف کے مطابق امریکہ اور جاپان کے درمیان انفارمیشن ٹیکنالوجی اور کرنسی کی جنگ نے ٹوکیو کو اقتصادی تنہائی کا شکار کر دیا ہے جبکہ تیس سال پہلے ایسا ہرگز نہیں تھا۔

چین نہیں چاہتا کہ جاپان کی غلطیوں کو دہرایا جائے اس لیے اس نے جنگی طریقہ کار میں کشیدگی اور قابلیت کو چنا ہے جبکہ امریکہ نے تحریک اور مرکزیت کا انتخاب کیا ہے۔

آج انٹرنیٹ پر امریکہ کی سٹریٹجک پوزیشن غیر جانبدار ہے، ایک خصوصی باب سائبر جاسوسی کی ٹپالوجی سے متعلق بتاتا ہے کہ کس طریقے سے امریکہ کی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی پوری دنیا سے ڈیٹا اور اور گفتگو کا مواد اکٹھا کرتی ہے حتیٰ کہ اس ڈیٹا اکٹھا کرنے اور انٹرنیٹ صارفین کی جاسوسی کے لیے اس نے امریکہ کے بڑے آپریٹرز کو بھی دھمکیاں دینے سے گریز نہیں کیاحالانکہ  یہ آپریٹرز پہلے ہی انہیں ڈیٹا تک مکمل رسائی دے چکے تھے اب امریکہ کے بڑے آپریٹرز اپنے ہی ناخن چبانے پر مجبور ہیں کیونکہ امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی ان کے سرورز تک مستقل رسائی حاصل کر چکی ہے۔

نیشنل سکیورٹی ایجنسی نے قابل ذکر تکنیکی مہارتوں کا اطلاق کرتے ہوئےسمندر پار آپٹیکل فائبرز کو ایک دوسرے سے جوڑا اور پھر برطانوی ادارے جی سی ایچ کیو کی مدد سے ان کی نگرانی شروع کی۔ جی سی ایچ کیو نے امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کو امریکہ سے گزرنے والی عالمی انٹرنیٹ ٹریفک کی مرکزیت کی سہولت بھی فراہم کی۔

روس میں پناہ لینے والے ایڈورڈ سنوڈن نے دینا کو امریکہ کی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کی جانب سے سائیبرسپیس پر کی گئی جاسوسی سے متعلق آگاہ کیا۔ ایڈورڈ سنوڈن کے جاسوسی سے متعلق انکشافات نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا اور ان انکشافات سے ان کے اپنے سائبر دفاع کے ماہرین بھی حیران و ششدر رہ گئے اور انہوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ پرزم-مسکولر آلہ کے بارے میں اٹھنے والے شکوک پر قابو پایا جاسکے۔

سمندر پار آپٹیکل فائبرز کے مسکولرز کو نجی نیٹ ورک گوگل اور یاہو کے ذریعے توڑا گیا۔

نیشنل سکیورٹی ایجنسی کو گوگل، یاہو، ایپل، ڈراپ باکس، یوٹیوب، فیس بک اور اے او ایل کے سرورز تک مستقل اور مکمل رسائی حاصل ہے اور اب یہ بڑے پیمانے پر امریکی فوج کے جاسوسی کے ذرائع بن چکے ہیں۔

امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی اوربرطانوی جی سی ایچ کیو نے جاسوسی کے لیے دو تکنیکوں پرزما اور مسکولر کو متعارف کرایا،غیر ملکیوں کی نگرانی کے لیے امریکہ نے 2008 میں آئینی ترمیم کرتے ہوئے غیر ملکی انٹیلی جینس ایکٹ بھی متعارف کرایااس ایکٹ کی رو سے امریکہ اپنے شہریوں کو چھوڑ کر باقی دنیا کے شہریوں کی انٹرنیٹ پر مکمل نگرانی کر سکتا ہے۔

امریکہ نے اپنی دلچسپ پنوپلی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئےاپنے حریفوں کی اقتصادی معلومات اکٹھی کیں تاکہ وہ اپنی قومی حدود سے ماورا مفادات کو تحفظ دے سکے، اس حوالے سے مشہور زمانہ ایشلون کی مداخلت کا کیس موجود ہے جس نے پرانے نیفٹا کے دوران انیس سو چورانوے میں سعودی عرب کو طیاروں کی فروخت کیلئے بوئنگ اور ایئربس کے درمیان مقابلے کے حوالے سے میکسیکو اور کنیڈا کی جاسوسی کی اسے امریکہ کے قومی اقتصادی ادارے کا بھی مکمل ادارہ جاتی تعاون حاصل تھا۔

ان جاسوسی تکنیکوں کے ذریعے یوروپ کو بھی مجبور کیا گیا کہ وہ ٹی ٹی آئی پی کا حصہ بنے بعد میں اس ٹی ٹی آئی پی کو خود ٹرمپ نے دفن کردیا۔

فارسٹر ریسرچ کے ایک تجزیہ کار جیمز سٹیٹن نے اندازہ لگایا ہے کہ سنوڈن کی امریکی جاسوسی کے حوالے سے مہلک آراء کےبعد امریکہ اور یورپ کے درمیان سائبر نیٹک کی ربط سازی کو 180 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچ سکتا ہے.

لورنٹ بلچ کے مطابق سائیبر سپیس میں کھلا تنازعہ ناگزیر ہو چکا ہے، امریکہ کی پوزیشن بہت مظبوط ہے اور یہ کہ چین بھی خواب خرگوش میں نہیں بلکہ وہ مستقبل کی انٹرنیٹ کی سائبر جنگوں کی مکمل تیاری میں جتا ہوا ہے۔

بگ ڈیٹا کے بڑے کاروبار نے گافاٹ GAFAT ٹیکنالوجیکل کمپنیوں :گوگل، ایمیزون، فیس بک، ایپل ، ٹویٹر کو بہت زیادہ تقویت دی ہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایمیزون اور اور ایپل کے سٹاک مارکیٹ میں اثاثوں کی قیمت ایک ٹریلین ڈالر ہے جو کہ میکسیکو کی کل جی ڈی پی کے برابر ہے جبکہ آئی ایم ایف کے مطابق میکسیکو کی معیشت دنیا کی درجہ بندی میں 15 ویں نمبر پر ہے۔

امریکہ کا انٹرنیٹ پر تسلط نہ صرف دنیا کے ممالک کے قوانین کو متاثر کر رہا ہے بلکہ کاپی رائٹ کا استعمال کرتے ہوئے ان کا استحصال بھی کیا جارہا ہے اور اس سے  دنیا کی مختلف ثقافتیں بھی تباہ ہورہی ہیں۔

لاطینی امریکہ اور خصوصی طور پر میکسیکو کے اندر ٹوئٹر کے پاس نیولبرل سیاسی ایجنڈا کو نافذ کرنے کا لائسنس ہے اور مکسیکو کے حکام اس سے مکمل طور پر بے خبر ہیں، حقیقی طور پر اب یہی لگتا ہے کہ امریکہ جیسے لاطینی امریکہ پر اپنا سائبرنیٹک حق سمجھتا ہے، یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ مکسیکو کے سابق صدر رفایل کوریا کا فیس بک اکاؤنٹ بھی بند کردیا گیا تھا. امریکہ کے لاطینی امریکہ کے ساتھ یہ رویہ اس سوال کو جنم دیتا ہے کہ  کیا لاطینی امریکہ والے امریکہ کے سائبر نیٹک نیومونروازم کے غلام ہیں؟

یہ پہلی بار نہیں ہے کہ صنعتی انقلاب (تیسرا اور چوتھا انقلاب جہاں انٹرنیٹ کھڑا ہے) نے طاقتوں کے نظم و نسق کو پریشان کر دیا ہے۔

ایک مخصوص انداز میں صنعتی انقلاب نے انٹرنیٹ کی بے انتہا تیزی کی صوابدید کو بھی بے نقاب کردیا ہے۔   مشہور 'کونڈراٹیو کے گھن چکر ( Kondratiev cycles  )کے مطابق پچاس سال اس کے عروج کے ہیں اور باقی پچاس سال اس کے زوال کے۔

مصنف کے مطابق سائبر کی صنعتی طاقت بھی بالکل جوہری طاقتوں جیسی ہے، کچھ ممالک کے پاس سائبر صنعتی طاقت ہے اور کچھ کے پاس بالکل نہیں۔

اینگلو سائٹس کی اجارہ داری کے باوجود جس نے 90 کی دہائی کے اواخر میں پچانوے فیصد سے زائد ویب سائٹس شائع کیں، امریکہ نے 2015ءمیں 53.6 فیصدعالمی ویب سائٹس کو کنٹرول کرتے ہوئے اپنا تسلط دوبارہ برقرار کرلیا۔

مصنف اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہتا ہے کہ، فوجی / صنعتی تسلط ہی حتمی ہے اور اس کے لئے ثقافتی اجارہ داری کے ساتھ ربط پیدا کرنا ناگزیر ہے اور امریکہ پہلے سے ہی آڈیو ویژل انڈسٹری میں پہلے نمبر پر موجود ہے  اور اب ایروونٹکس، زراعت اور الیکٹرانک-انفارمیٹکس کے ساتھ اتحاد کر کے برآمدی شعبے کو تقویت دے رہا ہے۔

لارنٹ بلچ امریکہ کی جانب سے  ٹیلی ویژن سیریز اور ہالی ووڈ فلموں کی دنیا بھر میں ترسیل کو جانچتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس سے عالمی معیار کے سماجی امریکی ماڈل نے جنم لیا ہے جس نے امریکہ کو دنیا کی سافٹ طاقت بناتے ہوئے دنیا کے ارتقاء پر اس کا بہت زیادہ اثرورسوخ قائم کردیا ہے۔

امریکہ کے سائبرنیٹک کے ذریعے دنیا کے جبری کنٹرول کو کون روک سکتا ہے جو اجتماعی تباہ کاری کی طرف دنیا کو دھکیل رہا ہے اگر اسے نہیں روکا گیا تو پھر یہ دنیا کے تمام شہریوں کو نگل جائے گا۔