بڑے جھوٹ کا دن

جدید تاریخ میں دومئی کا دن بہت نیچے چلا گیا کیونکہ اس دن دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد مارا گیا۔  سرکاری بیان کے مطابق دو ہزار گیارہ میں امریکہ کے خصوصی فوجی دستے نے انہیں اس گھر میں جا کے مارا جہاں وہ اپنی بیویوں اور بچوں کے ساتھ رہائش پزیر تھا۔  یہ پوشیدہ گھر پاکستان کے ایک شہر میں تھا جہاں وہ چھپ کر سکونت پزیر تھا۔ افغانستان میں ملا عمر کی حکومت کی شکت کے بعد سے روس میں کالعدم قرار دی جانے والی تنظیم القاعدہ کے مرکزی رہنماؤں نے افغانستان کو خیر آباد کہ دیا تھا کیونکہ اب انہیں افغانستان میں پناہ دینے والی ملاعمر کی حکومت نہ رہی تھی۔  رات کی تاریکی کے پردے میں دو امریکی ہیلی کاپٹروں نے افغانستان سے خصوصی فوجی دستوں کے گروپ کے ساتھض پاکستان میں آپریشن کی جگہ کے لیے پروان بھری اور یہ اقدام صریحاً ریاست پاکستان کی سالمیت خلاف تھا۔

پاکستان کے موجودہ وزیراعظم عمران خان اپنی کتاب پاکستان; ایک ذاتی تاریخ (Pakistan; A Personal History) جواسامہ بن لادن کے قتل والے سال میں ہی شائع ہوئی، میں لکھتے ہیں کہ یہ بہت ہی برا تھا کہ دنیا کا ایک انتہائی مطلوب شخص کسی غار میں نہیں بلکہ اسلام آباد شہر سے 50 کلومیٹر دور اور پاکستان ملٹری اکیڈمی سے ایک میل کی مسافت پر پایا گیا اور اس سے بڑھ کر اذیت ناک یہ ہے کہ اسامہ بن لادن کے قتل کی خبر نہ پاکستانیوں نے اور نہ ہی دنیا نے بلکہ امریکی صدر براک اوباما نے بریک کی۔

کافی گھنٹوں کے بعد ہماری حکومت کی جانب سے ایک بیان سامنے آیا جس میں امریکہ کو مبارکباد دی گئی اور اس بات کا کریڈٹ لینے کی بھرپور کوشش کی گئی کہ اسامہ بن لادن کی جگہ سے متعلق تمام معلومات امریکہ کو فراہم کی گئیں۔ یہ تمام پاکستانیوں کے لئے ایک واضح سوال تھا: اگر ہمیں اس کے چھپنے کی جگہ کا علم تھا تو تب ہم نے کیوں اس کو خود گرفتار نہ کیا؟ دنیا کے میڈیا اور خصوصا بھارتی میڈیا نے ہرزہ سرائی شروع کر دی اور پاکستان کی ایجنسی آئی ایس آئی دوسرے الفاظ میں افواج پاکستان پر اسامہ بن لادن کو چھ سال تک محفوظ گھر میں چھپائے رکھنے کا الزام لگایا۔۔۔

تین دن بعد آرمی چیف نے آپریشن کی معلومات سے متعلق لاعلمی کا اظہار کیا اور اعلان کیا کہ آئندہ پاکستان کی سالمیت کی خلاف ورزی ناقابل برداشت ہوگی۔ ہفتے بعد وزیراعظم نے ابہام میں اضافہ کیا جب انہوں نے آخرکار بیان دیاکہ پاکستان کے سٹریٹجک اثاثوں کے خلاف کسی بھی حملے کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ پاکستانیوں اور خصوصی طور پر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے یہ ایک انتہائی ذلت آمیز اور کربناک گھڑی تھی۔ سی آئی اے کے چیف پینیٹا نے مزید ہمارے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے بدتمیزی کے لہجے میں کہا کہ پاکستانی حکومت یا تو نااہل ہے یا پھر سازشی ہے۔

" اس دوران پوری دنیا میں امریکی پروپیگنڈا مشین مسلسل اپنا کام جاری رکھے ہوئے تھی جبکہ ابھی بھی بڑے پیمانے پر تنازعہ پایا جاتا ہے کہ واقعی اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں قتل ہوئے یا محض یہ ایک افسانہ تھا۔ "

اس پر فلمیں بنائی گئیں اور کتابیں شائع ہوئیں جن کی بنیاد ہی امریکہ کا سرکاری بیان اور اس سے منسلک مزید بیانیہ ہے۔ روسی زبان کے ویکیپیڈیا پیج پر آپریشن نیپٹیون سپیر بہت زیادہ تفصیل میں جاتا ہے، مزید برآں یہ کہ تمام لنکس یا تو امریکی ذرائع سے ہے یا پھر ان کی دوبارہ اشاعت کی گئی۔

حقیقت بہت ہی زیادہ حیران کن ہے کیوں کے جنہوں نے اسامہ بن لادن کے گھر پر ہونے والے حملے میں حصہ لیا ان میں سے اب کوئی بھی زندہ نہیں ہے۔ امریکی سرکار کے لیجنڈ ڈاکٹر شکیل آفریدی حقیقت کو اور بھی مشکوک بناتے ہیں کیونکہ انھوں نے ایک جھوٹے ویکسینیشن پروگرام کی آڑ  لیتے ہوئے اس علاقے میں اسامہ بن لادن کے مخفی مکان سے متعلق معلومات حاصل کیں۔ جونہی آپریشن ختم ہوا فوری طور پر غداری کے پاداش میں شکیل آفریدی کو 33 سال قیدکی سزا سنائی گئی. مزیدبرآں اسامہ بن لادن کو اسی ہی دن سمندر برد کرنے کی سرکاری کہانی سوچ کو ہی مفلوج کر دیتی ہے۔ بظاہر یہی دکھایا گیا کہ افغانستان میں امریکہ کے فوجی اڈے پر اسامہ بن لادن کی لاش کے معائنے اور اس کی شناخت کے لئے کافی وقت موجود تھا اور یہ کہ امریکیوں نے وہ سب کچھ حاصل کرلیا جو وہ جاننا چاہتے تھے۔

اس آرٹیکل کے مصنف کو حال ہی میں ایبٹ آباد جانے کا موقع ملا اور انہوں نے اس جگہ کا دورہ کیا جہاں پر اسامہ بن لادن کو قتل کیا گیااور وہاں پر انہوں نے وہ معلومات اکٹھی کیں جو ابھی تک دنیا کے پریس کا حصہ نہیں بن سکیں۔ ایبٹ آباد شہر پہاڑوں میں گھری ایک وادی میں موجود ہے اور اس کے قریب سے قراقرم ہائی وے گزرتی ہے۔ شہر میں ملٹری اکیڈمی کے علاوہ بڑی تعداد میں فوجی تنصیبات بھی قرب و جوار میں موجود ہیں۔ آرڈیننس فیکٹری جہاں مختلف قسم کے ہتھیار بنائے جاتے ہیں کی کئی کلومیٹر کی دیوار قراقرم ہائی وے کے دونوں اطراف میں موجود ہے۔   دوسرے الفاظ میں یہ بہت زیادہ ہائی سیکیورٹی والی جگہ ہے۔  2011 میں جب آپریشن کیا گیا اس وقت شہر میں اور اس کے گرد سکیورٹی کے انتہائی سخت اور سنجیدہ قسم کے انتظامات تھے۔ اکیڈمی کے علاقے میں داخل ہوتے ہیں فوری طور پر دائیں طرف اکلوتا موڑ مڑتا ہے جو بلال ٹاؤن کی طرف لے کر جاتا ہے۔ دکان کے باہر کھڑے ہوئے لوگوں کے ایک چھوٹے سے گروپ کے پاس ہم رکے اور ان سے بن لادن کے گھر کو جانے والا راستہ پوچھا۔ چند ہی سیکنڈوں کے وقفے کے بعد ان میں سے ایک شخص نے ہمیں بتایا کہ ہم کیسے وہاں پہنچ سکتے ہیں اور کہاں سے ہمیں مڑنا ہے۔ ہم ایک اور دکان کے پاس رکے تاکہ ہم مزید تصدیق کرلیں کہ ہم کہاں جا رہے ہیں اور بالآخر کچھ منٹوں کے بعد ہم وہاں پہنچ چکے تھے۔

پہلا آدمی جو ہمیں وہاں ملا وہ ایک عمر رسیدہ شخص تھا ہم نے اس سے بن لادن کے گھر کے بارے میں پوچھا تو اس نے جواب دیا ہاں یہ وہ گھر ہے جہاں پر امریکیوں نے آپریشن کیا اور لوگوں کو قتل کردیا جہاں پر کوئی اسامہ بن لادن موجود نہیں تھا، اسامہ بن لادن کی موجودگی ایک جھوٹ ہے۔ یہ شخص جلدی میں تھا اس لئے ہم نے اس سے مزید سوال نہیں کیے۔ وہاں پر اب صرف گھر کی بنیادیں ہی رہ گئی تھیں، یہ ایک اور حیران کن حقیقت ہے کیونکہ آپریشن کے کچھ عرصے بعد گھر کو ہی منہدم کردیا گیا تھا۔ گھر کے علاقے کو چہار اطراف سے ایک کم درجے کی کنکریٹ کی دیوار نے گھیر رکھا تھا جس میں کچھ اندر داخل ہونے کے راستے چھوڑ ے گئے تھے۔ کمپاونڈ کی دیوار کے اندر ہمیں دو شخص بیٹھے ہوئے ملے ہم نے ان سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ان میں سے ایک شخص نے رضاکارانہ طور پر ہمیں وہ سب کچھ بتانے پر رضامندی کا اظہار کیا جو کچھ وہ جانتا تھا۔

وہ وہاں قریب پاس میں ہی رہتا ہے، آپریشن کی رات اس نے اور اس کے خاندان کے دیگر لوگوں نے ہیلی کاپٹروں کی آواز سنی، آواز اتنی زیادہ تھی کہ اس کے والد چھت پر چڑھے کیونکہ انہیں خوف تھا کہ کہیں ہیلی کاپٹر ان ان کے گھر پر نہ گر جائے۔اچانک آسمان پر روشنی نمودار ہوئی اور پھر دھماکوں اور بندوقوں کے فائر کی آواز سنائی دیں۔

آپریشن والا گھر بذات خود دوسری عمارتوں سے کچھ فاصلے پر موجود تھااگرچہ اب اس کے آس پاس میں کچھ عمارتیں بنی ہیں لیکن 2011 میں صرف اس کے سامنے ایک سنگل سٹوری گھر موجود تھا۔بلاشبہ آپریشن والے دن ہمسائیگی میں رہنے والے تمام لوگ اپنے گھروں کی چھت پر آگئے یہ دیکھنے کے لئے کہ کیا ہورہا ہے۔ سب جانتے تھے کہ اس گھر میں کون رہتا ہے، ہم نے جن سے بات کی ان میں سے ایک شخص کے مطابق پشاور کے ایک کاروباری شخص کا خاندان رہتا تھا تمام ہمسائے اس کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے کیونکہ وہ ہمیشہ مقامی آبادی کی مدد کیا کرتا تھا, اس گھر کے گرد دیوار زیادہ اونچی تھی اور یہ ممکن ہے کہ یہی آپریشن کی منصوبہ بندی کرنے والوں کے لیئے ایک فیصلہ کن عنصر ہو۔

پھر کیا ہوا وقوعے کے چشم دید گواہ کے مطابق یہ بھارت کی انیس سو نوے کی دہائی کی ایک ایکشن فلم کے منظر کی طرح تھا، ایک ہیلی کاپٹر نیچے گرا اور آگ کے شعلوں کی نذر ہوگیا۔

پولیس تقریباً پہلے دھماکے کے گھنٹے بعد پہنچی اور گھر کو تحویل میں لے لیا اور لوگوں کو اندر جانے سے روک دیا۔

پڑوسی کے مطابق یہ بہت ہی حیران کن تھا کیونکہ عام حالات میں کسی شادی یا تقریب پر جب لوگ ہوائی فائر کرتے ہیں تو پولیس منٹوں میں پہنچ جاتی ہے لیکن اس موقع پر پولیس تقریبا ایک گھنٹے کے بعد پہنچی۔

تھوڑی دیر میں دوسرا ہیلی کاپٹر پہنچا اور اس میں امریکہ کے خصوصی فوجی دستے کے لوگ سوار ہوئے اور وہ دوبارہ اڑ گیا مقامی نوجوان نے اس وقوعہ کے بارے میں بتاتے ہوئے متعدد مرتبہ کہا کہ یہ ایک منظم طریقے سے رچایا ہوا ڈرامہ تھا۔

پڑوسی نے مزید بتایا کہ راستے میں آپ کو جو عمر رسیدہ شخص ملا اسے پاکستان کے خفیہ ادارے نے اٹھا لیا تھا اور بعد میں اسے چھوڑ دیا گیا۔

اس شخص کو بھی مکمل یقین تھا کہ وہاں پر اسامہ بن لادن نہیں تھا بلکہ معصوم لوگ مارے گئے۔ متعلقہ گھر کی اراضی قانونی طور پر نجی ملکیت تھی لیکن اب یہ سرکار کی تحویل میں آچکی ہے۔ قتل ہونے والے مالک کے خاندان کے کچھ لوگ شاید کہیں پر موجود ہوں گے لیکن انہوں نے ابھی تک اس اراضی کی ملکیت کا دعوی نہیں کیا کیونکہ ایسا کرنا خود کو ایک نئی مصیبت میں پھنسانا ہے۔

"تباہ ہونے والے امریکی ہیلی کاپٹر کے ملبے کا بھی ایک دلچسپ پہلو موجود ہے۔ پاکستانی فوج نے اس ملبے کو چین کے حوالے کیا ہیلی کاپٹر کے اس ملبے پر مزید تحقیقات کرکے اب امریکی ہیلی کاپٹر کا اپنا ورژن تیار کرلیا گیا ہے اس طرح اس آپریشن نیپچون سپیئر کا نتیجہ فوجی ٹیکنالوجی کا لیک ہونا ہے، تاہم اس طرح کی چیزوں پر امریکہ میں کبھی بات نہیں کی گئی۔"

اب یہ بھی سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ 9/11 کے بعد امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے 36ہزار لوگ جاں بحق ہوئے جلد میں 6000 فوجی بھی شامل ہیں اور ملک کا تقریباً 68 ارب ڈالر کا نقصان ہوا اور تقریبا پانچ لاکھ سے زائد لوگ بے گھر ہوئے۔ جبکہ امریکی فوجیوں کو پاکستان میں رکھنے پر امریکہ کے دس لاکھ ڈالر سالانہ خرچ ہوئے،اور پاکستان کے ایک فوجی کی سالانہ قیمت 900 ڈالر ہے۔ اور حال ہی میں امریکی ڈرون طیاروں نے افغانستان کے ساتھ منسلک پاکستانی بارڈر پر متعدد مرتبہ پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی اور ان ڈرون حملوں میں دہشتگردوں کی بجائے قبائلی علاقوں میں رہنے والے عام شہری بڑی تعداد بھی جاں بحق ہوئے۔

تاہم امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے زیر کنٹرول ذرائع ابلاغ کے اداروں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکی فوج کو فاتح قرار دیا۔  ہمیں شام اور عراق میں داعش کے خلاف امریکہ کی فتح کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ بیانات کوبھی یاد کرنے کی ضرورت ہے۔ دراصل جھوٹ کی ملمع کاری، امریکہ کی جغرافیائی سیاست کے مخالفین اور اس کے عالمی ایجنڈے کی مخالفت کرنے والوں کو بدنام کرنا امریکی اسٹیبلشمنٹ کے غلام میڈیا کا دن دیھاڑے کا کام ہے۔