عظیم دور کی واپسی

واشنگٹن پوسٹ کے آرٹیکل پر ڈوگن کا ردعمل
 

واشنگٹن پوسٹ نے 16 اپریل کو ایک آرٹیکل لکھا جس کا عنوان تھا " سٹیو بینن جیسے انتہائی دائیں بازو کے قوم پرست روسی نظریات سے کیوں متاثر ہیں اور کس طور سے اس نے اپنے مقصد کے لیے قرون وسطیٰ کے تصورات سے تاریخ کو مسخ کیا ہے" آرٹیکل کے مصنف برینڈن ڈبلیو ہاک اسے مکمل طور پر میرے نام کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرے افکار نے امریکی قدامت پرستوں اور انتہائی دائیں بازو کے حلقے بشمول معتبر نظریاتی منحرف سٹیو بینن اور خود ٹرمپ کو کیسے متاثر کیا۔ 

کیونکہ میرے ہی حقیقی خیالات کو مکمل طور پر مسخ کرکے کے انتہائی نچلے درجے کی بحث اور بڑے پیمانے پر جھوٹ اور گالم گلوچ کی گئی۔ میں نے پہلے سوچا کہ اس حملے پر خاموشی اختیار کی جائے جیسا کہ میں عام طور پر اس طرح کے معاملات پر خاموش ہو جایا کرتا ہوں. یہ ایک خالص لبرل مطلق العنانیت کا پراپیگنڈہ ہے جو حقیقت سے دور ایک خیالاتی جنگ ہے۔ 

جدید لبرل ازم سویت/گیوبلز کے طرز طریق پر خالص ہمہ گیریت کا نظریہ ہے۔ عالمی لبرل بیانیہ کو للکارنے والا یا تو فاشسٹ قرار دیا جاتا ہے یا پھر کیمونسٹ۔ میں نے حقیقی طور پر عالمی لبرل بیانیہ کو للکارا ہے اور پراپیگنڈہ کرنے والوں کے مطابق میں کیمونسٹ تو نہیں ہوں لیکن شاید وہ مجھے نیو سٹالنسٹ سمجھتے ہیں جیسا کہ اکثر مجھے کہا بھی جاتا ہے۔ لہذا مجھ پر فاشسٹ کی چھاپ لگا دی گئی اور پھر باقی ماندہ سب یعنی نسل پرست، سامی دشمن، سامراج پسند ، ہٹلر کا حامی، اور اس طرح کے کئی اور۔

 

آپ مکانی طور پر اس گفتگو کو مرتب کر سکتے ہیں: 

مسٹر ایکس لبرل عالمگیریت کے خلاف ہے، ہم اس کے اور اس کے خیالات کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ 

لیکن انتہائی حقیقت یہ ہے کہ اگر مسٹر ایکس لبرل مخالف اور گلوبلسٹ مخالف ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ یا تو کیمونسٹ یا پھر فاشسٹ۔
 

اگر مسٹر ایکس اپنے ہی متن میں بار بار سماجی انصاف، سرمایہ درانہ نظام کے الفاظ لکھتے ہیں یا پھر چی گویرا یا مارکس کا ذکر کرتے ہیں تو یقیناً وہ کیمونسٹ ہیں، آؤ پھر ہم اس پر آرویل، سولزینٹینن، گلگ-جرائم، اور پول پوٹ کی طرز کے حملہ کرتے ہیں.  وہ ایک خونی کیمونسٹ ہے۔ 

اگر مسٹر ایکس "روایت"، "خاندان"، "افراد"، "شمیٹ" یا "ہیائیگرگر" کی اصطلاحات کا استعمال کرتا ہے، تو وہ یقینی طور پر نازی ہے اور ذاتی طور پر ہولوکاسٹ اور بڑے پیمانے پر قتل کا ذمہ دار ہے۔

محض چند الفاظ پر مسٹر ایکس کو دھوکہ دیا گیا سزائے موت سنائی گئی اور اس پر عمل درآمد ہو گیا۔ کوئی ٹرائل نہیں، کوئی وکیل نہیں ، دفاع کا کوئی حق نہیں، کوئی سنوائی نہیں، کوئی تفتیش نہیں، کوئی تحقیق نہیں۔ ہر چیز واضح ہے۔ مسٹر ایکس مردہ ہی اچھا۔ خوش آمدید لبرل مطلق العنانیت کی آماجگاہ میں۔ 

برینڈن ڈبلیو ہاک کا لکھا گیا مضمون بالکل اسی انداز میں ہے۔ وہ یہ ظاہر کرتا ہے ہے کہ میری تحریروں میں نہ ہی کسی قسم کا کوئی علم ہے اور نہ ہی اس میں کسی کو کوئی دلچسپی۔ وہ محض یہ کہتاہے کہ ڈوگن لبرل عالمگیریت کے خلاف ہے (جی، بالکل درست) اور ایک بے ترتیب سائٹ جس پر کچھ خاص نہیں (اس کے ساتھ بہت سارے لوگ ہیں، ان کی بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو خود سے بھی واقف نہیں وہ اس کو مرتب کرتے ہیں، وہ دوست، ٹرول اور نفرت کرنے والے بھی ہوسکتے ہیں) یورپ کے وسطی ادوار کی تصاویر ہیں جن میں پیرس کے نوٹری ڈیم گرجا گھر کی آگ لگنے کی تصویر بھی موجود ہے۔ 

لفظ Tradition روایت کا ذکر کیا گیا ہے (بسا اوقات جلی حرف تہجی T کے ساتھ)اور کارل شمٹ اور ہیائیگرگر کا بھی اکثر حوالہ ملتا ہے.  کوئی شک و شبہ نہیں کہ یہ نازی ہے. یہ پیوٹن کی حمایت کرتا ہے؟ بہت خوب – یہ پیوٹن کا نازی ہے۔ خطرناک؟ یہ یقیناً بالکل Milo Yiannopoulos ملیو یاننوپولوس کی طرح ہے ، یا شاید اس سے بھی زیادہ (جوہری ہتھیار شامل ہیں). برینڈن ڈبلیو ہاک نے تقریبا اپنا آرٹیکل مکمل کر لیا ہے.  اور کیا؟ اہ!: بینن واپس آچکا ہے اور ٹرمپ اپنی دوسری باری کی مہم میں داخل ہورہے ہیں۔ لہذا وہ نازیوں اور پوتین کے ہاتھوں میں ہیں – بہت اچھا  تاہم Mueller ملر کی رپورٹ بھی کسی حد تک غلط ہوگی. ایک نئی تحقیق کی ضرورت ہے.  اب سب کچھ عمدہ طور پر فٹ بیٹھتا ہے۔ 
 

واشنگٹن پوسٹ نے بڑے انہماک سے آرٹیکل کو شائع کیا۔ چھوٹے گوبلز لبرل برینڈن ڈبلیو ہاک نے اپنا فریضہ بہترین طور پر ادا کیا۔ نازی پیوٹن کی جانب سے سے شیطانی قرون وسطیٰ کی سلطنت کی بحالی کی سازش اور ڈوگن-بینن-ٹرمپ ملی بھگت ایک تسلیم شدہ حقیقت بن جاتی ہے۔  ایک احمق کا لکھا گیا متن احمقوں کے لیے میگزین میں چھاپا گیا۔ کچھ بھی ذاتی نہیں – محض ایک نظریاتی جنگ نافذ کی جارہی ہے۔ لبرل ازم اور گلوبل ازم خود کا دفاع کر رہے ہیں اور پوپپر/سورس کے پروگرام Open Society اوپن سوسائٹی کے لیے دشمنوں جیسا کہ آرتھوڈکس پر حملہ آور ہیں۔ بانگ دہل اور فخریہ انداز میں جھوٹ ، جھوٹ  مکمل جھوٹ اور وہ آپ کے آمرانہ احکامات کی اطاعت کریں گے۔ 

 

یہاں سچائی سے انحراف پر میرا ردعمل:

روسی سیاسی تجزیہ کار اور جدید فاشسٹ، ڈوگن "

میں بلکہ ایک فاشسٹ مخالف ہوں اور میں نے اس کی وضاحت اپنے چوتھے سیاسی نظریے کی کتاب کے سینکڑوں صفحات میں کی ہے۔ لبرل مخالف، کیمونسٹ مخالف اور فاشسٹ مخالف ہونے کی وجہ سے اس کتاب پر ایمیزون نے پابندی لگادی ہے۔ کیا آپ کو اندازہ ہے کہ اس پر پابندی کیوں لگائی؟ ( میں آپ کو ایک اشارہ دیتا ہوں، دراصل واشنگٹن پوسٹ کے مالک جیفری پریسٹن بیزوس ایک ہی وقت میں ایمزون کے  سی ای او  بھی ہیں۔  ایسا لگتا ہے کہ واشنگٹن پوسٹ ایک نظریاتی ہتھیار کا کام سرانجام دے رہا ہے  - جو صحات سے کم نہیں ہے)

"اس کے یوروایشیا کے نظریے کی بنیاد ہی بنیاد پرست مذہبی قوم پرستی ہے"

میں ایک قائل مخالف قوم پرست ہوں کیونکہ قوم جدید،  سرمایہ دار نہ مصنوعی تخلیق ہے (میں یہاں گیلنر اور بینیڈک اینڈرسن کی "تصور کردہ کمیونٹی" کے خیال سےمتفق ہوں) 

"اس کی ویب سائٹ قرون وسطی کی منظر کشی اور تصویر کشی سے مزین ہے: اولیاء کی شبیہیں، بازنطینی موزیک فن، مسودات اور گرجا گھروں کےفن تعمیر کے بارے بھری پڑی ہے۔"

شاید ایسا ہی ہو لیکن مجھے یاد نہیں کہ کون سی ویب سائٹ کیونکہ میں تو بہت ساری ویب سائٹس پر وضاحت کی۔ کیا یہ جرم ہے؟ کیا مجھے فاشسٹ کہنے کی یہی وجہ ہے؟

"رومن سلطنت اور قرون وسطیٰ کے یورپ سے متعلق اس کا نقطہ نظر معتبر سفید عیسائی قوم پرستی کی فتح کا معترف ہے. "

میں نسل پرستی کا مخالف ہوں یہی میرا گہرا اور راسخ عقیدہ ہے۔ میرا خیال ہے کہ نسل پرستی جدت کی مصنوعی تخلیق ہے۔ میں جس یوریشین ازم کا سب سے بڑا حامی ہوں اس میں روسی معاشرے میں لوگوں کی ملی جلی شناخت جس میں تاتاریوں اور تورانی نسلی گروہوں کے مثبت کردار کی بھرپور حمایت کی گئی ہے۔ میری تحریروں میں "معتبر سفید عیسائی قوم پرستی" جیسے الفاظ نہیں ہیں. شاید یہ امریکن اور یورپی قوم پرست تحریکوں میں ہوں لیکن میرا ایسے خیالات سے کوئی تعلق نہیں۔ مزید یہ کہ میں ہر قسم کی قوم پرستی کے خلاف ہوں، عیسائی قوم پرستی میرے لئے تو بالکل ہی بے معنی ہے۔

"ڈوگن، بینن اور دوسرے دائیں بازو کے بنیاد پرستوں نے نسل پرستی Judeo-Christan یسوع مسیح کی اصطلاح متعارف کرائی ہے."

حالانکہ یہ اصطلاح سٹیو بینن نے استعمال کی ہے لیکن میں نے کبھی استعمال نہیں کی۔ پانچ کروڑ متعلق بہ انجیل امریکی بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن نظریاتی طور پر ایک مذہبی اصطلاح جس میں عیسائیت اور یہودیت دونوں شامل ہوں کیسے نسل پرستی کے زمرے میں آسکتی ہے۔ لیکن اس منطق کے مطابق امریکہ کی آبادی کا چھٹا حصہ یہودی مخالف ہے ۔۔۔۔ کتنا عجیب ہے۔ 
 

"اس کے علاوہ، ڈوگن اور ڈیوڈ ڈیوک، میلو یونانوپوسوس، سٹیفن ملر اور یہاں تک کہ صدر ٹرمپ کے آپس میں تعلقات موجود ہیں."

ڈیوڈ ڈیوک روسی میوزیم میں مجھے اچانک ملا اسے پہلے کہ میں اسے پہچانتا وہ سلفی بناکر فوری غائب ہوگیا۔ ہم نے ایک بھی لفظ کا تبادلہ نہ کیا۔ دنیا کے مختلف شہروں کی گلیوں میں مجھے اکثر اس طریقے سے ملا جاتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اس طرح کی ہزاروں سیلفیاں میرے ساتھ بنائی گئی ہونگی۔ میں میلو یونانوپوسوس کو فیس بک اور الیکس جونز کے ٹی وی شو سے جانتا ہوں۔ وہ بہت ہی مزاحیہ ہے مجھے اس کا لبرل کو ٹرال کرنے والا انداز پسند ہے جو اس کی موجودگی میں مکمل گونگے ہوجاتے ہیں۔ کیا میلو یونانوپوسوس کے انٹرنیٹ کے مذاکرے کو توجہ دینا ذاتی تعلقات میں شامل ہوتا ہے؟ ہمہ گیریت لبرل کے انداز میں ہاں یہ یقیناً ایسا ہی ہے۔ بگ برادر آپ کو دیکھ رہا ہے۔ ہاں پھر ٹھیک ہے۔ 
 

آخری سوال: سٹیفن ملر کون ہے؟ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ مجھ سے کچھ اہم چھوٹ گیا ہے۔ برینڈن ڈبلیو ہاک جیسے بلند ہمت فاشسٹ کے خلاف لڑنے والے جنگجو کی جانب سے استعمال کیےگئے تعلقات کے لیے الفاظ بہت مضبوط دکھائی دیتے ہیں یہ ایسا ہے جیسے کیپٹن امریکہ بامقابلہ ڈاکٹر ایول۔

- "حتیٰ کہ صدر ٹرمپ"

جی ہاں، ضرور - مسٹر مویلر اور اس کی رپورٹ سے پوچھیں.
 

یہ حوالے علم کے معیار، مصنف کے عدم استحکام اور واشنگٹن پوسٹ کی سطح کو سمجھنے میں مدد گارہیں.  کچھ خاص نہیں.
میں نے لبرل گلوبلسٹ پراپگنڈست کے متعصب حملے کاردعمل دینے کا فیصلہ کیا (مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ پراپیگنڈا اتنا میرے خلاف نہیں جتنا بین اور ٹرمپ کے خلاف ہے) نہ کہ خود کو ان جھوٹے الزامات سے بچاؤں – میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح کے لاحاصل احتجاج ہمہ گیر عالمی نظام میں قائم کردہ لبرل جھوٹ کی گفتگو کی طاقت کے لئے ہیں۔ یہ وجہ یکسر مختلف ہے۔ 

 

ایک وجہ یہ بھی ہے کہ میں برینڈن ڈبلیو ہاک سے ذاتی طور پر متفق ہوں کہ مجھے قرون وسطیٰ سے محبت اور جدت سے نفرت ہے۔ میرے مطابق روشن خیالی مکمل طور پر غلط، جدید سائنس اور وسیع سائنسی دنیا کا نظریہ جھوٹ پر مبنی ہے۔مجھے خدا فرشتوں اور مقدس روح پر یقین ہے نہ کہ سقراط، ایف۔بیکن یا آئین سٹائین پر۔ میں سمجھتا ہوں کہ افلاطون اور ارسطو بالکل صحیح تھے لیکن ان کے atomist detractors بالکل غلط۔ مجھے یقین ہے کہ چرچ کے فادرز مطلق سچ کے حامل ہیں اور جدید فلسفہ باغی فرشتے– شیطان کے دماغ کی تابکاری ہے۔ مجھے یقین ہے کہ کشف/ الہام قریب ہے اور دجالی فتنہ ساز لبرل ازم اور گلوبلائزیشن قیامت کی واضح نشانیاں ہیں۔ میں روایت پسند ہوں اور روسی Slavophiles، دوستوفسکی،  Soloviev اور دیگر مزہبی فلسفیوں اور بادشاہوں کا پیروکار ہوں۔ میں رینی گیوون اور جولیوس ایولا کے بہت سارے خیالات کا معترف ہوں۔ میں عہد رفتہ اور قرون وسطیٰ کا حامی ہوں جبکہ جدت اور اس کی ہماقسمی نوعیتوں کے مکمل خلاف ہوں۔ میں جدیدیت اور مغرب کے خلاف ہوں (جدیدیت اور مغرب کے معنی ایک ہی ہیں) میں جدیدیت کو مغرب کی تباہی اور تنزلی کے طور پر دیکھتا ہوں۔ فلسفیانہ طور پر میں ہائڈگر سے متفق ہوں کہ جدیدیت کی بنیاد خود کو بھول جانے میں ہے۔ میں ان لوگوں کے بارے میں سوچتا ہوں جو اپنی ذات کی نئی کھوج میں لگے رہتے ہیں۔ میں مصنوعی ذہانت کو آخری اوتار کا داس مین (یا Gestell) سمجھتا ہوں اور میں اسے دجال یا اس کے ایک سربراہ کے طور پر تصور کرتا ہوں۔

میں مقدس رومن سلطنت کی بحالی کا حامی ہوں: روم یورپ کے لئے اور بازنطین روس کے لئے۔ میں بیک وقت خود مختار اور اجتماعی خود حکمرانی کا قائل ہوں تاکہ سلطنت پولی سنٹرک اوروفاقی ہو نہ کہ غیر مرکزی اور قومی ہو۔ میں نسل پرستی کو مسترد کرتا ہوں اور مذہب کی گہرائیت کا قائل ہوں تاکہ شناخت کا تحفظ کیا جاسکے۔ آرتھوڈوکس عیسائی ہونے کی وجہ سے مجھے روایتی مذاہب جیسا کہ اسلام، ہندوازم بدھ ازم، اور یہودیت کی غیر جدت پسند روایتی شاخوں (جیسا کہ Naturei Karta) سے انتہائی ہمدردی ہے۔ میں چین کی مقدس تہذیب کا بھی معترف ہوں۔ مجھے امید ہے کہ یہ سب واپس آئیں گے۔ میں عظیم وقتوں یا قرون وسطیٰ  کی واپسی کا وکیل ہوں۔ کیوں کہ قرون وسطیٰ ماضی نہیں بلکہ ابدیت کا عکس ہے۔قرون وسطیٰ کے ہمیشہ سے امکانات موجود ہیں یہ وقت کا نہیں بلکہ ترجیح کا سوال ہے۔ 

روس میں مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے بہت سارے لوگ مجھ سے متفق ہیں۔ اور بہت سارے لوگ ایسے بھی ہیں جو میرے خلاف ہیں۔اور بیرونی ممالک میں بھی یہی صورتحال ہے۔یورپ، امریکا، مسلم دنیا(ایران اور ترکی سمیت) چین, بھارت,  لاطینی امریکا, اور افریقہ کے روایت پسند لوگ بھی اس سوچ کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ لیکن یہ واضح ہے کہ مطلق اکثریت ہمارے ساتھ نہیں۔یہ حقیقت کچھ عجیب نہیں۔ ان دنوں اکثریت دجالی سموہن (لبرل ازم، گلوبل ازم، مصنوعی ذہانت اور اس طرح کے کئی اور) میں جکڑی ہوئی ہے۔ مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ کچھ لوگ، تحریکیں اور بسا اوقات اعلی درجے کے سیاسی رہنما اس روایت پسندی کے ویژن کو چاہے جزوی طور پر یا پھر عملی طور پر  آگے تو بڑھارہے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ امریکہ میں بھی زیادتر ٹرمپ کے حامیوں میں ایسے لوگ موجود ہیں۔ میں اس سے خوش ہوں. اور ایسا ہونا بھی چاہئے: کیو نکہ آخری جنگ قومی سرحدوں تک محدود نہیں ہوسکتی یہ پوری انسانی تاریخ کا ایک انسانی موقع ہے۔ ہے بھی اور نہیں بھی کے سوال کو حل کرنے کےلئے خود ڈاسن کی ڈاس مین کے خلاف لڑائی (ڈاسن کے وجود کے اندرونی شکل کے طور پر)۔ یہ تقسیم کی لائن ہے۔ یہ پرانے نظریات ( لبرل ازم، فاشزم یا کیمونزم) کا سوال نہیں ، نہ ہی قوموں، مزاہب، نسلوں اور تہذیبوں کے درمیان جنگ ہے۔ یہ ابد بامقابلہ وقت ہے۔ یہ مطلق بامقابلہ غیرمطلق,  افلاطون-ہائیدگر-گوون بامقابلہ اپیکیورس-ڈیسکارٹس-پوپپر، یہ مقدس بامقابلہ غیر مقدس ہے۔
 

یہ قرون وسطیٰ ہے جس کے لیے میں کھڑا ہوں: ابدی قرون وسطیٰ کی جدید دور کے ساتھ ابدی جنگ ہے۔یہ نہ کیمونزم اور نہ تو فاشیزم ہے بلکہ یہ چوتھا سیاسی نظریہ ہے۔

میں ان چیزوں کو مکمل طور پر رد کرتا ہوں جن کو میں نہیں پہچانتا، اور ان چیزوں کا رسمی اور غیر رسمی طور پر انکاری ہوں (جیسا کہ نسل پرستی ،قومیت پرستی، سامراجیت پسندی، نوآبادیاتی نظام، اجنبیت سے بیزاری اور دیگر)۔اور اس طرح میں تہذیب پسندی،قدامت پسندی کے انقلاب ، اور قرون وسطیٰ کی واپسی کا سب سے بڑا محافظ اور وکیل ہوں۔ ( نئے قرون وسطیٰ کی سوچ پر روسی مذہبی سکالر Nikolai Berdiaev اپنا تحقیقاتی مقالہ لکھ چکے ہیں) میری طرف سے دی گئی یہ وضاحتیں اور صفائیاں بتاتی ہیں کہ میں واشنگٹن پوسٹ میں برینڈن ڈبلیو ہاک کے مقالے کو تسلیم کرتا ہوں۔

کیا اب بینن ،ٹرمپ اور پیوٹن انسانی تاریخ کی ساخت کا ایک ہی رویہ آگے بڑھاتے ہیں؟ کیا ان کی قدامت پسندی ایک سی ہی ہے؟ کیا وہ روایت پسند ہیں؟ چلے ان سے انہیں کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ شاید ہاں شاید ناں۔ لیکن سب سے اہم یہ ہے کہ عظیم وقت کی واپسی کس سوچ بہت سنجیدہ ہو چکی ہے۔جبکہ دنیا کے بڑے جرائد میں سے ایک میں یہ نقطہ زیر بحث رہا۔ تمام احمقانہ الزامات ایک طرف، لیکن برینڈن ڈبلیو ہاک کا آرٹیکل ہمیں بتاتا ہے کہ اس دنیا میں دوطرح کے کیمپ ہیں: ایک ان کا اور ایک ھمارا۔اصل جنگ ان کے درمیان نہیں بلکہ ہمارے معاشروں میں جاری ہے۔ شاید کچھ سنجیدہ امریکی اسی طرح سوچتے ہیں اور وہ عظیم وقت کی واپسی چاہتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس طرح کی کچھ لوگ کریملن، بیجینگ، انقرہ ،تہران، یورپ کے دارالحکومتوں اور لاطینی امریکہ میں موجود ہیں۔ان میں سے کچھ کو تو میں جانتا ہوں اور کچھ کو نہیں۔ لیکن بہرحال معادیات کی اس حتمی جنگ میں ہم ایک ہی طرف ہیں۔کیا ایسے لوگ متحدہ ہائےامریکا میں بھی ہیں؟ جہاں بھی انسان ہیں وہاں ایسے لوگ ہونے چاہیے۔ ڈاسن موجود ہے شاید ڈاسن نے تاریخ میں آخری دفعہ فیصلہ کیا ہے (وجودیات کی تاریخ –Seynsgeschichte )،اور اگر یہ انتخاب غلط ہوا تو۔ 

مختصراً جب برینڈن ڈبلیو ہاک کہتا ہے کہ ڈوگن کو یقین ہے کہ لبرل ازم کا متبادل قرون وسطیٰ کی واپسی ہے تو وہ بالکل ٹھیک کہتا ہے جی ہاں مجھے بھی یہی لگتا ہے۔

برینڈن ڈبلیو ہاک مزید لکھتا ہے جدیدسیاسی معاملات کو حل کرنے کے لئے ماضی کے قرون وسطیٰ کے مثالی تصور کو استعمال کرنا حقیقت کے برعکس ہے۔ برینڈن ڈبلیو ہاک ظاہر کرتا ہے کہ میں قرون وسطیٰ کے مثالی تصور سے وابستہ ہوں لیکن درحقیقت وہ سچائی سے واقف ہے۔ اور ایسا ہی اگلے ہی جملے میں ہے: " اگرچہ اس کے خیالات حقیقی قرون وسطیٰ سے کم مماثلت رکھتے ہیں"۔

مسٹر برینڈن ڈبلیو ہاک یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے  کہ "اصل قرون وسطیٰ " کیا تھے اور اس سے متعلق میرے خیالات کےمعیار  مسترد کرتا ہے۔  کوئی دلائل؟  واشنگٹن پوسٹ تفخرانہ انداز  میں پیش کرتا ہے... ایک بار پھر مجموعی دلیل.

ایسا آگے بھی جاری رہتا ہے: "ڈوگن نے قرون وسطیٰ کے افسانوی ورژن کو پسند کیا ہے۔۔۔۔۔ڈوگن افسانہ کے ساتھ منسلک ہے جبکہ واشنگٹن پوسٹ "حقیقت" جانتا ہے۔۔۔۔یقینا۔

اور حتمی طور پر یہ تبصرہ کیا گیاکہ" یہ بری تاریخ سے ماخذ شدہ روایتی قصوں کو خریدتا ہے۔"بری تاریخ "تاریخ کا ورژن ہے اور اس کا یقینا عالمی لبرل گفتگو سے کوئی تعلق نہں۔ 

لیکن یہ تفصیلات اتنی اہم نہیں کہ جنہیں واشنگٹن پوسٹ میں چھاپا جائے، لیکن نازیوں، پیوٹن کے ایجنٹوں،  برے لوگوں،  غلط قصوں اور مسخ شدہ خیالات سے لاتعلقی آپ کی ذمہ داری ہے۔ آپ برے لوگوں کے کیمپ میں مثبت خصوصیات کو تسلیم نہیں کر سکتے –وہ ہر لحاظ سے خوفناک اور قابل نفرت ہیں۔ یہ ضروری فارمولا ہے۔

آرٹیکل کا بنیادی خیال کچھ اور ہے لیکن یہ خیال بالکل درست ہے۔ جدت اپنے اختتام کی طرف گامزن ہے۔ اب مکمل طور پر جدیدیت کی عالمی واپسی کا وقت ہے۔اب معتدل قدامت پسندی درست نہیں۔یہ ختم ہو چکی ہے۔ اگر ہم پتال میں گر جاتے ہیں یا یاد کرتے ہیں کہ کہ کوئی کس طریقے سے روح کے پروں کے ساتھ پرواز کرتا ہے۔ تیز رفتار لبرل ازم اور نیم معتدل قدامت پسندی کے درمیان اب ہر گز سمجھوتے کا امکان نہیں۔بنیاد پرستی ہی حل ہے۔

اگر ہم جدیدیت کی منطق اور جزوی بعد از جدیدیت کو برقرار رکھتے ہیں تو ہم تباہ ہوجائیں گے اور بعد از انسانی مخلوقات ہماری جگہ لے لیں گی۔ ہمیں سست روی یا پھر رکنے کا فیصلہ کرنے کی بجائے ہمیں اس سمت پر پھر سے نظرثانی کرنی چاہئے جس طرف ہم جا رہے ہیں۔ مسئلہ رفتار نہیں بلکہ سمت ہے۔
 

نئےوسطی دور کے منصوبے پر زور دیا گیا:کیونکہ جدیدیت کا آغاز ہی غلطی سے ہوا۔ ہم صورتحال کو مغربی یورپی فیصلے کے بغیر نہیں سنبھال سکتے جو کہ جدت اور روشن خیالی کی طرف گامزن ہے۔ یہ مقدس روایت کو توڑنے کی غلطی تھی۔جدید دنیا کے بحران کا ذریعہ تھا اور گوون کے مطابق یہ حکمرانی کی وسعت کی ابتدا تھی۔

جدیدیت ختم ہو چکی ہے اور اس کے اندرونی افق میں باہر سے کچھ بھی نہیں ، ہمیں اس افق پر قابو پانے کے لئے مدعو کیا گیا،  جس کا مطلب ہے نئی شروعات۔ عظیم واپسی ، اب یہ محض فلسفیانہ غرض نہیں رہی۔ یہ اب عالمی سیاست کا بنیادی مسلہ ہے۔ تاہم آپکا شکریہ برینڈن ڈبلیو ہاک کہ آپ نے ضروری نقطے کو چھیڑا۔ آؤ نئے قرون وسطیٰ کی طرف آگے بڑھیں۔